فلسطینی عوام صرف غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بربریت کا شکار ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جا بجا پھیلے فلسطینی صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیوں کا مسلسل سامنا کررہے ہیں۔ غزہ کی پٹی کے بعد سب سے مشکل حالات کا سامنا مقبوضہ مغربی کنارے کے شہری کررہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کی طرح مغربی کنارے کو بھی ایک کھلی جیل بنا رکھا ہے، جہاں سے اسرائیلی حکام کی مرضی سے نہ کوئی بیرون ملک جاسکتا ہے اور نہ باہر سے اندر داخل ہوسکتا ہے۔ بیرون ملک آمد و رفت تو مغربی کنارے کے مکین بیت المقدس، غزہ کی پٹی، شمالی اور جنوبی فلسطین کے کسی دوسرے شہر میں آزادانہ آجا نہیں سکتے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کی اہالیان مغربی کنارے پر ناروا سفری پابندیاں نئی نہیں ہیں لیکن حالیہ چند مہینوں میں تو ان پابندیوں کی بھی انتہا کردی گئی ہے۔ کہیں سیاسی بنیادوں پر کسی شہری کو بیرون ملک سفر سے روک دیا جاتا ہے۔ کبھی خواتین کی عمر کا بہانہ بنا کر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ تم عمر رسیدہ ہو اس لیے تمہیں بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دی جاسکتی وغیرہ وغیرہ۔
ان پابندیوں کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے جولائی میں صرف 20 فلسطینیوں کو مغربی کنارے سے الکرامہ گذرگاہ کے راستے اردن جانے کی اجازت دی جبکہ گذشتہ برس جولائی میں کم سے کم 1463 مسافروں کو بیرون ملک سفر کی اجازت دی گئی تھی۔
اسرائیل کی مجرمانہ انتقامی پالیسی
مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بیرون ملک سفر سے روکنا دراصل اسرائیل کی فلسطینیوں سے انتقامی پالیسی ہے جس پر سال ہا سال سے عمل جاری ہے۔ تازہ پابندیوں کی بنیادی وجہ جون میں مغربی کنارے کے شہرالخلیل سے
تین یہودی لڑکوں کے اغواء کے بعد قتل کے واقعے کو سمجھا جا رہا ہے۔ گوکہ یہودی آباد کاروں کے اس پراسرار قتل میں مغربی کنارے کے عوام کا کم سے کم کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اسرائیل نے اس واقعے کو بنیاد پر بنا کر نہ صرف غزہ کی پٹی پر فوج کشی کی اور دو ہزار شہریوں کو شہید کردیا بلکہ مغربی کنارے کے شہریوں کو بھی ایک کھلی جیل میں بند کردیا، جہاں مقامی آبادی سے زیادہ اسرائیلی فوجی، پولیس اہلکار اور خفیہ اداروں کے عناصر پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مغربی کنارے کا کوئی مریض علاج کے لیے اردن کے راستے بیرون ملک جاسکتا ہے اور نہ ہی طلباء کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بیرون ملک سفر کی اجازت ہے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ فلسطینی ایک قدم بھی اسرائیل کی مرضی کے بغیر نہیں اٹھا سکتے اور لگ رہا ہے کہ پیش آئند عرصے میں معصوم فلسطینیوں کو دوسرا سانس بھی اسرائیلی فوج کی مرضی سے لینا پڑے۔
نابلس کے راسم عطاء اللہ نامی ایک کاروباری شخص نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں پچھلے دس سال سے الکرامہ گذرگاہ سے اردن آتا جاتا رہا ہوں لیکن مجھے ایک مرتبہ بھی واپس نہیں بھیجا گیا۔ لیکن جولائی میں مجھے جب بیرون ملک جانا ہوا تو اسرائیلی فوج نے نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں مجھے اردن کے سفر سے روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کی وجوہات محض ایک بہانہ ہے ورنہ اسرائیل دراصل تین یہودی آباد کاروں کے قتل کے بعد فلسطینی عوام سے انتقامی پالیسی پر اتر آیا ہے۔ عطاء اللہ کا کہنا تھا کہ میں نے ایک فوجی سے اپنے بیرون ملک سفر پر پابندی کی بابت دریافت کیا تو اس کا کہنا تھا کہ تم لوگ مجرم ہو اور فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ تہمیں الکرامہ گذرگاہ سے سفر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔